اتوار، 20 جنوری، 2019

قطب الاقطاب حضرت مولانا بشارت کریمؒ گڑھول شریف

ابتدائی حالات:
 حضرت مولانا بشارت کریم نوراللہ مرقدہ ٗ  مسلکاً حنفی اور مشرباً نقشبندی مجددی تھے۔آپ کا مولداور مسکن ضلع سیتامڑھی کی ایک بستی موضع گڑھول شریف ہے۔ آپ کی پیدائش کا سن کہیں باضابطہ لکھاہوا نہیں ہے ۔لیکن قرینہ اور قیاس سے جو پتا چلاہےوہ یہ کہ آپ کا سن ولادت1294ھ ہے۔ تقریباً چھ سال کے تھے کہ آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا ۔اور دس سال کے ہوئےتووالد بزرگوار کے سایہ شفقت سے بھی محروم ہوگئے۔ والدکے انتقال کے بعداپنے بہنوئی کی تربیت میں آئے۔آپ فرماتے تھے پہلے مجھے انگریزی کی فرسٹ بک شروع کرائی گئی،مگروہ سلسلہ زیادہ دنوں تک جاری نہ رہا۔پھرفارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔بچپن سےہی مزاج میں سنجیدگی ا  ور مطانت تھی کہ عام طور پر بچوں میں نہیں پائی جاتی ہے ۔جب کچھ بڑےہوئےتو حکیم مولانا علی حسن صاحب چھپروی سےدربھنگہ میں فارسی عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔پھروہاں سےمدرسہ جامع العلوم مظفرپورپہنچےاس وقت جامع العلوم کی نئی بنیاد پڑی تھی۔جناب حافظ رحمت اللہ صاحب مرحوم مدرسہ کے مہتم تھےاور مولانا عبدالواسع صاحب سعدپوریؒ مئولف مناجات مقبول مدرس اول  تھے۔حافظ رحمت اللہ صاحب مرحوم اس وقت رودادمدرسہ میں لکھتےہیں۔حافظ محمد بشارت کریم جنہوں نے اس سال حفظ مکمل کیا ہےان کی ایک خاص خصوصیت ہے کہ شرح جامی وغرہ بھی پڑہتے تھے اور حفظ بھی کرتے تھے۔اس لئےجب ماہ رمضان المبارک  میں آپ تراویح میں پورا قرآن سنا چکےتو ان کی دستاربندی ہوئی۔اس کے بعد مدرسہ فیض عام  کانپور میں استادزمن مولانا احمد حسین صاحب کانپوری  رحمۃاللہ علیہ کی درسگاہ  میں فن معقول ومنقول سے فراغت حاصل کی۔


                                



قطب الاقطاب حضرت مولانا بشارت کریمؒ گڑھول شریف


جذبہ خداطلبی،تلاش مرشدوسفرحج
آپ کے اندرخدا طلبی کا جذبہ تو ایام تعلیم ہی سے تھا ۔مگرتحصیل علم کی مشغولیت کے باعث اس طرف زیادہ توجہ نہ کر سکے تحصیل علم سے فراغت کے بعد تقریباً چھبیس سال کی عمر میں حج بیت اللہ کے لیے1318ھ میں تشریف لے گئے۔وہاں دوسال قیام پذیر رہے۔اثنائے قیام میں بڑے بڑے اھل اللہ کی زیارت ہوئی کتنےابدال کی خدمت میں گئے۔کتنے مجذوبوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔خیال ہوا کہ اسی مقام مقدس میں پوری زندگی گذاردوں۔مگر وہاں ایک بزرگ(اھل اللہ) مولانا محب اللہ رحمتہ اللہ علیہ کی معیت اورصحبت حاصل ہوگئی۔وہ بڑےصاحب کشف بزرگ تھے ۔انہوں نے فرمایا کہ آپ ہندوستان تشریف لے جائیں وہاں آپ سے بہت خیر کا صدور میں دیکھ رہاں ہوں۔غرض ان کے حکم اور مشورہ سے دوسال قیام کرکے ہندوستان واپس ہوئے۔اس وقت کے مشہور اولیا اللہ  مثلاً حضرت شاہ ابوالخیر رحمتہ اللہ علیہ ،حضرت  مولانا  فضل الرحمٰن گنج مرادآبادی  ؒ اور ان کے علاوہ اور بھی بزرگوں کی خدمت میں حاضرہوئے۔ مگر کہیں سے کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔بلکہ ایک بزرگ مولانا عسیٰ خاں صاحب نےفرمایا کہ آپ کو آپ کے ساتھی ہی سے فائدہ ہوگا۔بالآخر تمام چکرلگا نے کے بعد کانپور مسجد دلاری میں مایوس ہوکر بیٹھ گئے۔اپنے ہم سبق ساتھی کو اپنا پیر بنالیا ۔حضرت مولانا غلام حسین کانپوری رحمۃاللہ علیہ

                                                                   

قطب الاقطاب حضرت مولانا بشارت کریمؒ گڑھول شریف

کشف و کرامات

        1۔جناب شاہ نور اللہ عرف پنڈت جیؒ حضرت مولانا بشارت کریمؒ کےہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے اور آپ ہی کی تعلیم ظاہری وباطنی سے کمالات باطنی سے مالامال ہوئے وہ فرماتے تھے کہ ابتدائی زمانہ میں ایک مرتبہ مجھے اپنے سابق قیامگاہ (کٹیا جو بھاگلپور کے کسی علاقے میں تھا ) جانے کا خیال ہوا ۔بارہ بجے شب میں گاڑی اسٹیشن پر پہونچی سوچا کہ اسی وقت مکان روانہ ہو جاؤں۔ مگر اسٹیشن کے عملہ نےمنع کیا کہ راستہ میں جنگل ہے ۔اس میں جنگلی درندے رہتے ہیں ۔اس لئے راہ پر خطر ہے ۔ اس وقت جانا مناسب نہیں ہے مگر میں نے نہ مانا اور چل نکلاکچھ ہی دور جانے کے بعدایک بڑا شیر غڑاتا ہوا سامنے آگیا ۔ فوراً کیا دیکھتاہوں کہ آپ  یعنی حضرت مولانا بشارت کریمؒ کھڑے ہیں اور فرمارہے ہیں جب لوگوں نے منع کیا تھا ۔تو پھر کیوں اس وقت چلے آئے۔ ہاتھ میں ایک چھڑی تھی ۔اس چھڑی سے شیرکو ہانکتے ہوئے آگئےبڑہتے گئےمیں بھی ان کے پیچھے پیچھے تھا۔جب جنگل کا حصہ ختم ہوا اور شیر بھاگ گیاتو چھڑی مجھ کودیے دی اوروہ غائب ہو گئے۔( وہ چھڑی بہت دنوں تک موجودتھی)۔
         2۔حاجی عبدالحمیدصاحب ساکن موضع ململ ضلع  مدہوبنی حج کے لیے جانے لگےتو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعاء کی درخواست کی۔ آپ نے دعائیں دیں اور فرمایا کہ راہ میں اگر کوئی پریشانی ہو تو میراتصور کرنا۔ جب جہاز پر سوار ہوئےتو اثنا ء راہ میں زبردست طوفان آیا ۔کپتان نے خطرہ کا اعلان کردیا۔سارے مسافر اس وحشتناک خبر سے پریشان ہوگئے۔ حاجی صاحب موصوف  بھی پریشان  ہوئے۔ان کو یاد آیا کہ آپ نے فرمایا تھا جب کوئی پریشانی ہو تو میراتصور کرناچنانچہ آپ کا تصور کیا ۔فوراً کیا دیکھتے ہیں کہ آپ پانی پربہت تیزی سے چلے آرہے ہیں اور آتے آتے جہاز کےنیچے چلے گئے۔ تھوڑی دیربعد اعلان ہوا کہ خطرہ دور ہو گیا ۔اور جہاز حسب معمول چلنے لگاوہاں تو ہو ہوا اور ادھرگڑھول شریف میں آپ اسی وقت حجرہ کے اندر تشریف لےگئےاور حجرہ بند کر دیا ۔کچھ دیرکے بعد حجرہ کھولا اور اپنے بدن کےسارے بھینگے ہوئے کپڑےکسی کو دیئے کہ اس کو دھو کر سوکھنے رکھ دوپھر حاجی صاحب موصوف حج سے واپس آئےاور سارے واقعات کی کڑی ملائی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ آپ ہی کےعجائب تصرفات اور کرامات سے ہے۔
              

ہفتہ، 19 جنوری، 2019

قطب الاقطاب حضرت مولانا بشارت کریمؒ گڑھول شریف

آپ کا مسلک ومشرب
     آپ نقشبندی مجددی سنی حنفی المذہب تھے۔اہل سنت والجماعت کےعقائدپر راسخ الاعتقاد تھے۔ مگر دیوبندی بریلوی وغیرہ کے مختلف فیہ مسائل میں ایسا تشددنہ تھا کہ نفرت و تفرق وتشتّت،کا سبب ہوتا ، جس کا یہ اثرتھا کہ آپ کی بابرکت مجلس میں ہر مکتب خیال اور ہر مکتب فکر کے علماءصلحااور عوام کا مجمع رہتا  اور سب کے لیےآپ کی ذات بابرکات مرجع اور مرکزتھی۔
       آپ کے مرید خاص جناب حافظ رمضان علی صاحب مرحوم  ساکن موضع بکھراضلع سیتامڑھی،جب بہ سلسلہ ملازمت کے موضع ململ میں قیام پذیرہوئے تو حافظ صاحب موصوف کی کیفیات باطنی کےتاثرات اور زہدوتقویٰ کو دیکھ کر وہاں کے لوگ اس قدر متاثرہوئےکہ ان میں سے کئی آدمی  آپ کی خدمت میں حاضر ہوکرحلقہ بگوش ہوگئےاور ان میں سے بعضوں نے جو غیر مقلد تھے اپنے عدم تقلید کے قلادہ کواپنی گردنوں سے نکلال ڈالا۔ مولانا عبدالعزیزرحیم آبادی نے جو اس وقت مشہور علمائےاہل حدیث میں تھے،جب ان سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنا مسلک کیوں چھوڑدیا، تو برجستہ جواب دیا کہ آپ کے یہاں احسان والی حدیث کہ''  ان تعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک"
        ترجمہ: اللہ کی عبادت کر اس طرح سے کہ گویا تو اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ پس اگر تو نہیں دیکھ سکتا تو وہ تجھ کو دیکھ رہا ہے۔
       قال کے ذریعہ کانوں سے تو بہت سنتا رہا، لیکن حال کے ذریعہ دلوں میں کوئی کیفیت پیدا نہیں ہوئی۔ مولانا گڑھول کی خدمت میں مجھ کو یہ بات حاصل ہوئی، غرض اتباع سنت اور عمل بر شریعت کے ساتھ مزاج میں تلطف،حسن خلق اور تبحر علمی کے امتزاج  نے آپ کی ذات کو مختلف الخیال علماءاور عوام وخواص کا مرجع بنا دیااور ان سب سے بڑھ کر جو چیز خاص وجہ کشش تھی وہ تاثیر صحبت تھی۔

                                                     






جمعہ، 18 جنوری، 2019

قطب الاقطاب حضرت مولانا بشارت کریمؒ گڑھول شریف

تاثیر صحبت

1۔ آپ کی صحبت کیمیا اثر میں اللہ تعالی نے وہ تاثیر عطا فرمائی تھی کہ جو طلب صادق کے ساتھ آپ کی خدمت آگیا ۔مشائخ کرام کی نسبت سے سر شار ہو گیا ۔ حضرت شاہ نوراللہ ( پنڈت جیؒ )جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پہلے ٹالنا چاہا ۔ لیکن جب دیکھ لیا کہ ان کا ارادہ مستحکم اور طلب صادق ہے تو فرمایا جائیے غسل کر لیجئے۔ جب غسل کر کے آئے تو آپ نے کلمہ طیبہ کی تلقین کی جیسے ہی حضرت شاہ نوراللہ (پنڈت جیؒ) نےکلمہ اپنی زبان سے نکالافوراً کیفیت طاری ہو گئی اور بےتابی اور بےقراری کے ساتھ سر پٹکنےلگے۔اس کے بعد ان پر بے تابی کی ایسی کیفیت طاری رہا کرتی کہ مرغ بسمل کی طرح نیم جان ہو جاتے اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کیف وجذب میں ایک دفعہ ایسا ٹرپےکہ ان کی ہڈی تک ٹوٹ گئی۔آپ کی تاثیر صحبت کا تماشہ ہر اس شخص نے دیکھا ہے جو ایک دفعہ بھی صدق نیت اور طلب صادق کے ساتھ آپ کی مجلس میں بیٹھ گیا۔
       2۔حضرت شانوراللہ ( پنڈت جیؒ) جب مسلمان ہوئے تو ایک بہت بڑا پنڈت اس خیال سے آیا کہ ان کو پھر اپنے مذہب کی طرف لے آئے،لیکن جب ان سے گفتگو ہوئی تو لا جواب ہی نہیں ہوا بلکہ بہت متاثربھی ہوا اور کہا کہ جب آپ کی یہ حالت ہے تو آپ کے گرو کیسے ہیں ، ان سے ملاقات کرا دیجئے۔ چنانچہ آپ کی خدمت میں حاضرہوا اور کہا کہ حضورآپ اپنی توجہ باطنی سے مجھ کو اپنے جیسا بنادیجئے۔خدا جانے وہ کون سا وقت تھا آپ لیٹے ہوئے وظیفہ میں مشغول تھےاٹھ بیٹھےاور فرمایا اچھا بیٹھ جاؤیہ کہہ کر ایسی توجہ دی کہ وہ بالکل پسینہ پسینہ ہوگیا اور بدحواس ہوکر بھاگاہوا سیدھےتالاب میں جاکر غسل کیا ۔جب بدن میں ٹھنڈک ہوئی توپھرجناب پنڈت جیؒ کے پاس پہنچا۔لوگوں بڑی ملامت کہ ارے بیوقوف یہ تم نے کیا کیا ،کیوں بھاگ آئے۔پھر ندامت ہوئی تو دوبارہ آیا مگر وہ وقت گذرچکاتھا۔آپ نے فرمایا کہ جاؤ اب کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔
                                                            


جمعرات، 17 جنوری، 2019

قطب الاقطاب حضرت مولانا بشارت کریمؒ گڑھول شریف

انتقال پر ملال

قد خلت من قبلہ الرسل

      قدرت کا قانون سب کے لیےیکساں ہے۔ آپ بھی  اس قانون الہٰی سے مستثنیٰ نہ تھےاور وہی ہوا جو انبیا ء اور اولیا ء اللہ کے ساتھ ہوتا آیا ہے ۔1354ھ محرم کی 19/ تاریخ تھی اور پنچ شنبہ کی شب کہ تقریباً ڈھائی بجے آپ اندر تشریف لے گئےلوگوں کو بیدار کیا اور ادھر ادھرٹہلنے لگے ۔ ٹھوڑی دیربعد گھر گھراہت بڑھتی گئی۔لوٹا لیا دونوں ہاتھ دھو کر کلی کیا اور تخت پر بیٹھ گئے۔پوچھا گیا کیسی طبیعت ہے۔ فرمایا کمزوری ہے۔ اسی اثنا ء میں اضطرابی کیفیت پیدا ہو گئی اور بہت بے چین ہو گئے۔پھر اسی حالت میں تخت سے اتر کر آگن میں گئےاور آسمان کی چاروں طرف دیکھا ۔اور پھر آکرتخت پر بیٹھ گئے اور اضطراب بڑ ھتاہی گیا ۔آپ کی زوجہ مرحومہ نے کہا میرا بچھاون بہت پاک صاف ہے اس پر تشریف لےچلیں ۔یہ سنتے ہی نہایت تیزی کے ساتھ وہاں پر جاکر بیٹھ گئےاور زورزور لاالٰہ الااللہ دو تین بار فرما کر دعاءکے لیے ہاتھ اٹھایا اور ٹھوڑی دیر خاموش رہےپھر ہاتھ گرا کر بآواز بلند '' لا الہ الا اللہ نہایت اضطراب کے ساتھ فرمانے لگے۔ آواز اتنی بلند ہوئی کہ باہر دروازہ پر بالکل صاف سنی جارہی تھی۔وہ اپنےورد میں مشغول تھے اور چند منٹوں کے بعد کلمہ طیبہ پڑھتے ہو ئے لیٹ گئے، لیٹنے کے ساتھ تین بجے شب میں روح پر واز کر گئی '' انا للہ واناالہ راجعون '' یہ خبر بجلی کی طرح پورے علاقے میں پھیل گئی اور سیتامڑھی ،مظفرپور ،دربھنگہ وغیرہ شہروں اور دیہاتوں سے موٹر، ٹرین ،سائیکل اور پاپیادہ ہر طرح سے اور ہرطرف سے لوگوں کا ہجوم ہی ہجوم نظر آرہا تھا ۔اور 20 محرم الحرام 1354ھ مطابق 1935ء کو بعد نماز ظہر آپ کے صاحبزادے جناب مولانا محمد ایوب صاحب مرحوم نے جنازہ کی نمازپڑھائی اور تقریباً 5/ ہزار غمگساروں کی اشکبار آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ وہ علم و عرفان کا آفتاب 3 بجے دن کوآغوش لحد میں روپوش ہو گیا۔حوالہ۔ : جنت الانوار

 تالیف مولانا ادریس صاحب ذکاگڑھولویؒ

مولانا صفوان کریمیؔ ندویؔ

مرکزالمعارف حضرت بشارت کریمؒ
موبائل نمبر9798965696

جمعرات، 3 جنوری، 2019

قطب الاقطاب حضرت مولانا بشارت کریمؒ گڑھول شریف

﷽ ابتدائی حالات:  حضرت مولانا بشارت کریم   نوراللہ مرقدہ ٗ  مسلکاً حنفی اور مشرباً نقشبندی مجددی تھے۔آپ کا مولداور مسکن ضلع سیتامڑ...