﷽
کشف و کرامات
1۔جناب شاہ نور اللہ عرف پنڈت جیؒ حضرت مولانا بشارت کریمؒ کےہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے اور آپ ہی کی تعلیم ظاہری وباطنی سے کمالات باطنی سے مالامال ہوئے وہ فرماتے تھے کہ ابتدائی زمانہ میں ایک مرتبہ مجھے اپنے سابق قیامگاہ (کٹیا جو بھاگلپور کے کسی علاقے میں تھا ) جانے کا خیال ہوا ۔بارہ بجے شب میں گاڑی اسٹیشن پر پہونچی سوچا کہ اسی وقت مکان روانہ ہو جاؤں۔ مگر اسٹیشن کے عملہ نےمنع کیا کہ راستہ میں جنگل ہے ۔اس میں جنگلی درندے رہتے ہیں ۔اس لئے راہ پر خطر ہے ۔ اس وقت جانا مناسب نہیں ہے مگر میں نے نہ مانا اور چل نکلاکچھ ہی دور جانے کے بعدایک بڑا شیر غڑاتا ہوا سامنے آگیا ۔ فوراً کیا دیکھتاہوں کہ آپ یعنی حضرت مولانا بشارت کریمؒ کھڑے ہیں اور فرمارہے ہیں جب لوگوں نے منع کیا تھا ۔تو پھر کیوں اس وقت چلے آئے۔ ہاتھ میں ایک چھڑی تھی ۔اس چھڑی سے شیرکو ہانکتے ہوئے آگئےبڑہتے گئےمیں بھی ان کے پیچھے پیچھے تھا۔جب جنگل کا حصہ ختم ہوا اور شیر بھاگ گیاتو چھڑی مجھ کودیے دی اوروہ غائب ہو گئے۔( وہ چھڑی بہت دنوں تک موجودتھی)۔
2۔حاجی عبدالحمیدصاحب ساکن موضع ململ ضلع مدہوبنی حج کے لیے جانے لگےتو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعاء کی درخواست کی۔ آپ نے دعائیں دیں اور فرمایا کہ راہ میں اگر کوئی پریشانی ہو تو میراتصور کرنا۔ جب جہاز پر سوار ہوئےتو اثنا ء راہ میں زبردست طوفان آیا ۔کپتان نے خطرہ کا اعلان کردیا۔سارے مسافر اس وحشتناک خبر سے پریشان ہوگئے۔ حاجی صاحب موصوف بھی پریشان ہوئے۔ان کو یاد آیا کہ آپ نے فرمایا تھا جب کوئی پریشانی ہو تو میراتصور کرناچنانچہ آپ کا تصور کیا ۔فوراً کیا دیکھتے ہیں کہ آپ پانی پربہت تیزی سے چلے آرہے ہیں اور آتے آتے جہاز کےنیچے چلے گئے۔ تھوڑی دیربعد اعلان ہوا کہ خطرہ دور ہو گیا ۔اور جہاز حسب معمول چلنے لگاوہاں تو ہو ہوا اور ادھرگڑھول شریف میں آپ اسی وقت حجرہ کے اندر تشریف لےگئےاور حجرہ بند کر دیا ۔کچھ دیرکے بعد حجرہ کھولا اور اپنے بدن کےسارے بھینگے ہوئے کپڑےکسی کو دیئے کہ اس کو دھو کر سوکھنے رکھ دوپھر حاجی صاحب موصوف حج سے واپس آئےاور سارے واقعات کی کڑی ملائی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ آپ ہی کےعجائب تصرفات اور کرامات سے ہے۔
حضرت نور اللہُ صاحب کی تدفین کراچی کے علاقے شرف آباد میں ہے
جواب دیںحذف کریں