﷽
آپ کا مسلک ومشرب
آپ نقشبندی مجددی سنی حنفی المذہب تھے۔اہل سنت والجماعت
کےعقائدپر راسخ الاعتقاد تھے۔ مگر دیوبندی بریلوی وغیرہ کے مختلف فیہ مسائل میں
ایسا تشددنہ تھا کہ نفرت و تفرق وتشتّت،کا سبب ہوتا ، جس کا یہ اثرتھا کہ آپ کی
بابرکت مجلس میں ہر مکتب خیال اور ہر مکتب فکر کے علماءصلحااور عوام کا مجمع
رہتا اور سب کے لیےآپ کی ذات بابرکات مرجع
اور مرکزتھی۔
آپ کے مرید
خاص جناب حافظ رمضان علی صاحب مرحوم ساکن
موضع بکھراضلع سیتامڑھی،جب بہ سلسلہ ملازمت کے موضع ململ میں قیام پذیرہوئے تو
حافظ صاحب موصوف کی کیفیات باطنی کےتاثرات اور زہدوتقویٰ کو دیکھ کر وہاں کے لوگ
اس قدر متاثرہوئےکہ ان میں سے کئی آدمی آپ
کی خدمت میں حاضر ہوکرحلقہ بگوش ہوگئےاور ان میں سے بعضوں نے جو غیر مقلد تھے اپنے
عدم تقلید کے قلادہ کواپنی گردنوں سے نکلال ڈالا۔ مولانا عبدالعزیزرحیم آبادی نے
جو اس وقت مشہور علمائےاہل حدیث میں تھے،جب ان سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنا مسلک
کیوں چھوڑدیا، تو برجستہ جواب دیا کہ آپ کے یہاں احسان والی حدیث کہ'' ان تعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن
تراہ فانہ یراک"
ترجمہ: اللہ کی عبادت کر اس طرح سے کہ گویا تو اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ پس اگر تو
نہیں دیکھ سکتا تو وہ تجھ کو دیکھ رہا ہے۔
قال کے ذریعہ کانوں
سے تو بہت سنتا رہا، لیکن حال کے ذریعہ دلوں میں کوئی کیفیت پیدا نہیں ہوئی۔
مولانا گڑھول کی خدمت میں مجھ کو یہ بات حاصل ہوئی، غرض اتباع سنت اور عمل بر
شریعت کے ساتھ مزاج میں تلطف،حسن خلق اور تبحر علمی کے امتزاج نے آپ کی ذات کو مختلف الخیال علماءاور عوام
وخواص کا مرجع بنا دیااور ان سب سے بڑھ کر جو چیز خاص وجہ کشش تھی وہ تاثیر صحبت
تھی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں